علمائے حق اہلِ سنت کی چند قرآنی تفاسیر کا تعارف
- Admin
- Sep 06, 2022
تفسیر تبیان القرآن کے مفسر کا نام غلام رسول سعیدی ہے۔آپ 1937ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کی کنیت ابو الوفاء تھی۔علامہ غلام رسول سعیدی صاحب ایک مایہ ناز مدرس و مصنف تھے۔ تفسیر،حدیث،فقہ ،کلام اور تصوف آپ کے پسندیدہ علوم تھے۔ تفسیر تبیان القرآن اسے تبحر علمی کا ایک بہترین شاہکار ہے۔
مفتی عبدالقیوم ہزاروی تذکرۃالمحدثین کے ابتدائیہ میں آپ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
علامہ غلام رسول سعیدی صاحب بیک وقت بہترین مدرس ،مفتی، مناظر،مصنف اور فصیح و بلیغ ادیب وخطیب ہیں،تدریس کے میدان میں کئی سال سے معقولات اور منقولات پڑھا رہے ہیں اور اصول و فنون کے ماہر استاذ کی حیثیت سے انہوں نے اپنا نام پیدا کر لیا ہے۔
آ پ 1997ء تا 1999ء دو سال تک اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رہے۔ آپ کا اسلوب تحقیق و تصنیف یہ ہے کہ زیربحث عنوان سے متعلق سب سے پہلے قرآن مجید کی تعلیمات سے رجوع کرتے ہیں پھر احادیث،پھر اقوال صحابہؓ اور پھر فقہاء و علماء امت کی نگارشات کو زیر بحث لاتے ہیں۔
دور حاضر میں تبیان القرآن ایک جامع ،مبسوط اور بے مثل و مثا ل قر آن مجید کی تفسیر ہے جو کہ 12 ضخیم جلدوں اور 1752 صفحات پر مشتمل ہے۔ فرید بک سٹال نے اسے شائع کیا ہے مصنف نے 10 رمضان المبارک 1414ھ/1994 ء میں اس تفسیر کا آغازکیا۔
علامہ غلام رسول سعیدی صاحب ترجمہ کے اسلوب کی بابت خود فرماتے ہیں:
میں نے قرآن مجید کا ترجمہ تحت الفظ نہیں کیا اور نہ ہی ایسا کیاہے کہ قرآن مجید کے الفاظ سے بالکل الگ اور عربی متن کی رعایت کیے بغیر قرآن مجی کے مفہوم کی ترجمانی کی جائے ۔میں نے اپنے آپ کو قرآن مجید کے الفاظ اور عبارت کا پابند رکھا لیکن لفظی ترجمہ نہیں کیا ترجمہ میں زیادہ تر علامہ سید احمد سعید کاظمی کے ترجمہ' البیان' سے استفادہ کیا ہے۔
تفسیر تبیان القرآن میں بیان کردہ مضامین محققانہ اور مدلل ہونے کے ساتھ ساتھ خاص قسم کا ربط رکھے ہوئے ہیں اس میں تفسیر با لماثور کے بنیادی قوانین کو استعمال کرتے ہوئے خیالاتی یا تکلفانہ گفتگو سے اجتناب کیا گیا ہے۔مفسر خود حنفی ہونے کی بناء پر فقہ حنفی کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اس سے قبل تمام آئمہ اربعہ کی آراء کا ان کی بنیادی کتب سے دلائل دینے کے بعد فقہ حنفی کو ترجیحی بنیادپر بیان کرتے ہیں جو کہ اردو زبان میں لکھی گئی تفاسیر سے بالکل نمایاں حیثیت رکھتی ہے اور اسی وجہ سے اس تفسیر کو برصغیر میں کیے جانے والے اردو کے تفسیری یا فقہی کام میں " انسائیکلوپیڈیا "کا درجہ دینا کسی طرح سے بھی بے جا نہ ہو گا۔ جس وقت بھی کوئی مسئلہ بیان کرتے ہیں تو بنیادی ماخذ سے استفادہ کرتے ہیں سب سے پہلے قرآنی دلائل اس کے بعد احادیث نبویﷺ اور آخر میں فقہی مباحث زیر بحث لاتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی عظمت و محبت اورا ہل بیتؓ اور صحابہؓ کرام کی فضیلت میں آیات سے استنباط کرتے ہیں دلائل میں منظق اور فلسفہ کا رنگ بھی نظر آتا ہے ۔
تفسیر میں قدیم وجدید تفاسیر سے استدلال کیا ہے۔ قدیم میں احکام القرآن ،البحر المحیط،تفسیر کبیر،الدار المنثور،اور روح المعانی جبکہ جدید تفاسیر میں تفسیر مراغی ،فی ظلال القرآن اور تفسیر قاسمی پیش نظر رہی ہیں۔ اسباب نزول کو بیان کرنے میں امام طبریؓ ؒ کی جامع البیان پر زیادہ اعتماد کرتے نظر آتے ہیں تفاسیر کی کتب میں بیان کردہ احادیث کو اصل مصادر کے حوالہ سے درج کرتے ہیں اور حدیث جتنی کتب میں موجود ہو ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ ان کا حوالہ دیا جائے ۔یہ تفسیر اردو زبان میں فقہی اسلوب و انداز کی بہترین تفسیر ہے جو کہ مفسر کا فقہ کی جانب رجحان کی دلیل ہے اکثر آیا ت قرآنیہ کی تفسیر کرتے ہوئے فقہاء کے اخذ کردہ احکام بیان کرتے ہیں اس تفسیر میں قدیم مسائل کے ساتھ جدید مسائل پر زیر حاصل بحث کرتے ہیں اور مسائل کا حل اس قدر خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں کہ قاری کے لیے سمجھنا انتہائی آسان ہو جاتا ہے۔
آپ کے اسلوب فقہ میں فقہ حنفی کے مؤقف پر مخالفین کے اعتراضات نقل کر کے ان کے دلائل بیان کرتے ہیں اور پھر ان میں سے ہر دلیل کا جواب دیتے ہوئے حنفی فقہ کی فضیلت و فوقیت ثابت کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر
اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بتوں کے پاس نصب شدہ پتھر اور فال کے تیر محض نا پاک ہیں ) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خمر کے معاملہ میں ائمہ ثلاثہ کے نزدیک ہر نشہ آور مشروب مطلقاً حرام ہے خواہ اس کی مقدار کثیر ہو یا قلیل اور امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک خمر تو مطلقاً حرام ہے اور خمر کے علاوہ باقی نشہ آور مشروبات جس مقدار میں نشہ آور ہوں اس مقدر میں حرام ہیں اور اس سے کم مقدار میں حرام ہیں نہ نجس اور ان کا پینا حلال ہے ۔امام بوحنیفہؒ کا استدلال ان حدیثوں سے پر ہے حضرت ابن عباسؓ بیان کرتےہیں کہ خمر کو بعینہ حرام کیا گیا ہے خواہ قلیل ہویا یاکثیراور ہرمشروب میں سے نشہ آور(مقدار) کوحرام کیا گیا ہے۔اس حدیث کا مختلف حدیث کی کتابوں میں موجود ہونا ذکر کیا ہے بعد ازاں صحابہ کرامؓ کے مختلف آثارکا خلاصہ پیش کیا ہے جن سے فقہاء احناف نے استدلال کیا ہے۔
تبیان القرآن علامہ غلام رسول سعیدی کی مایہ ناز تفسیر اور عظیم کارنامہ ہے، یہ قرآن کریم کی ایک مبسوط اور جامع تفسیر ہے، مصنف نے تقریباً دس سال کی مدت میں اسے مکمل کیا، یہ تفسیر بارہ ضخیم مجلدات پر مشتمل ہے، تیرھویں جلد میں اشاریہ ہے اور اس کا ترجمہ ''نور القرآن‘‘ کے نام سے الگ بھی چھپ چکا ہے، اس کے حاشیے میں ''انوارِ تبیان القرآن‘‘ کے نام سے تبیان القرآن کا تفسیری خلاصہ ہے، اسے علامہ عبداللہ نورانی نے مرتّب کیا ہے۔ تفسیر تبیان القرآن اور انوارِ تبیان القرآن کے درجنوں ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، یہ تفسیر ہندوستان سے بھی شائع ہو چکی ہے اور روئے زمین پر جہاں جہاں اردو دان طبقہ موجود ہے‘ وہاں یہ تفسیر بھی یقینا موجود ہے۔
تبیان القرآن سے پہلے قرآنِ کریم کے جو اردو تراجم شائع ہوچکے تھے، اُن میں بعض تَحتَ اللَّفْظ ہیں، نہ ان میں سلاست و روانی ہے اور نہ اردو روز مرّہ اور محاورے سے پوری مطابقت ہے، بعض میں سلاست تو ہے، لیکن یہ تراجم متنِ قرآنِ کریم سے مکمل ہم آہنگ نہیں ہیں۔ قرآنِ کریم کے تراجم کے حوالے سے بلاشبہ امام احمد رضا قادریؒ کا ترجمہ ''کنز الایمان‘‘ ایک سنگِ میل ہے، اس میں متنِ قرآنِ کریم کی پوری رعایت بھی ہے، سلاست بھی ہے اور ناموسِ الوہیت، ناموسِ رسالت و ناموسِ مقدّساتِ دین کی پاسداری بھی ہے۔
البتہ چند الفاظ اُس دور کے روزمرّہ کے مطابق ہیں، لیکن موجودہ دور کے اردو خوان طبقے کو ان کا سمجھنا دشوار ہے، جیسے:
الغاشیہ: 22 میں ''مُصَیْْطِر‘‘ کا ترجمہ ''کڑوڑا‘‘، حٰم السجدہ: 5 میں ''وَفِیْ اٰذَانِنَا وَقْرٌ‘‘ کا ترجمہ: ''اور ہمارے کانوں میں ٹینٹ ہے‘‘، لکھا ہے، یہ لفظ آج کی روز مرّہ اردو میں رائج نہیں ہے، عبس:31 میں ''وَفَاکِہَۃً وَأَبّا‘‘ کا ترجمہ: ''اور میوے اور دوب‘‘، التکویر: 4 میں ''وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ‘‘ کا ترجمہ: ''اور جب تھلکی اونٹنیاں چھُوٹی پھریں‘‘، الجن: 9 میں ''شِہَابًا رَّصَداً‘‘ کا ترجمہ: ''آگ کا لوکا‘‘، نوح :11 میں ''یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْْکُم مِّدْرَاراً‘‘ کا ترجمہ: ''تم پر شراٹے کا مینہ بھیجے گا‘‘ کیا ہے، وَغَیْرہ۔
الغرض ہوسکتا ہے لغت میں یہ الفاظ مل جائیں اور امامِ اہلسنت کے زمانے میں بریلی میں روز مرّہ بول چال میں بولے جاتے ہوں، لیکن اب ان الفاظ کو پوری معنویت کے ساتھ سمجھنے والے لوگ شاید ہی ملیں۔
اردو کے جدید تراجم میں علامہ عبدالحکیم شرف قادری کا ترجمہ ''انوار الفرقان‘‘ بلاشبہ ادبیت کا شاہکار ہے، لیکن کئی جگہ ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ترجمہ متنِ قرآن کی گرفت سے نکل چکا ہے، میری نظر میں'' تفسیرِ تبیان القرآن ‘‘ و ''ترجمہ نور القرآن‘‘ کی چند خصوصیات درج ذیل ہیں:
1۔
ترجمہ آج کی رائج الوقت اردو زبان کے تمام تقاضوں اور معیارات پر پورا اترتا ہے، سلاست و روانی کے باوجود یہ متنِ قرآنِ کریم سے جڑا ہوا ہے، اس کی گرفت سے باہر نہیں نکلا۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو عربی زبان جیسی گہرائی اور گیرائی کی حامل ہو، ایک ایک لفظ کے درجنوں اور بیسیوں معانی ہوں اور ایک ایک معنی کے لیے درجنوں الفاظ ہوں، نیز عربی زبان کی فہم کے لیے جتنے معاون علوم و فنون ہیں، اتنے دنیا کی کسی اور زبان میں نہیں ہیں۔ اس لیے محض اتنا کافی نہیں ہوتا کہ کسی لفظ کا جو ترجمہ کیا گیا ہے، وہ عربی لغت میں موجود ہے، یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ سیاق و سباق کیا ہے، اُس لفظ کا اطلاق کس ذات پر ہوا ہے اور متعدد معانی میں سے کون سا معنی اُس ذات کے شایانِ شان ہے، انہی امور کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے بعض مترجمین کے تراجم سے بے ادبی کا شائبہ پیدا ہوا۔
امامِ اہلسنّت نے ترجمۂ قرآن میں جس شِعار کی بنیاد ڈالی اور اُسے کمال تک پہنچا دیا، ہماری نظر میں علامہ سعیدی نے اُسے مزید زینت بخشی ہے، دیگر تراجم سے مقابلہ کرتے ہوئے ہم کسی ترجمے کو ''اَکمل واَتم‘‘ قرار دے سکتے ہیں، لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ اب اس سے آگے مزید تحسین، اِکمال اور اِتمام کی گنجائش نہیں رہی، جیسے جیسے انسان کے مشاہدات و تجربات اور علم آگے بڑھتا جائے گا، کائنات کے بارے میں قدرت کے سربستہ رازوں کے نئے نئے گوشے کھلیں گے تو قرآنِ کریم کی تفہیم وتفہُّم کے نئے امکانات پیدا ہوں گے اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری وساری رہے گا۔
2۔
تفسیرِ تبیان القرآن کے منظرِ عام پر آنے سے پہلے ہمارے علم میں عربی زبان سمیت دنیا کی کسی زبان میں کوئی ایسی تفسیر نہیں ہے کہ جس میں تفسیر القرآن بالحدیث اس انداز سے کی گئی ہو کہ ہر حدیث کا حوالہ اصل ماخَذ اور رقم الحدیث کے ساتھ دیا گیا ہو، اس کے بعد اگر یہ شعار آگے بڑھتا ہے تو اس کا اعزاز بلاشبہ علامہ صاحب کو جاتا ہے۔ جب تفسیر تبیان القرآن لکھی جا رہی تھی، اُس وقت تک بیروت سے بخاری شریف نمبرنگ کے ساتھ نہیں آئی تھی، علامہ صاحب نے اپنی ضرورت کے لیے ایک نسخے کی نمبرنگ اپنے شاگردوں کے ذریعے کرائی تھی۔
3۔
علامہ صاحب نے اپنی تفسیر میں متقدمین سے بعض مسائل میں اپنے دلائل کے ساتھ اختلاف بھی کیا ہے، کسی کی بات اپنی ذات میں حرفِ آخر قرار نہیں دی جا سکتی، ترجیحی دلائل کی روشنی میں متقدمین کے علمی ذخائر کو پرکھاجاتا رہے گا، اجتہادی مسائل میں اُن سے اتفاق بھی ہو گا اور بعض مسائل میں اختلاف بھی ہو گا، علامہ صاحب بھی اس سے مبرّا نہیں ہیں۔ ہر ایک کو حق ہے کہ دلائل کی روشنی میں اُن سے اتفاق کرے یا اختلاف کرے، یہ اصحابِ علم کا کام ہے کہ دلائل کی کسوٹی اور میزان پر مختلف علمی و فقہی نظریات کو پرکھیں اور اُن کی درجہ بندی کریں، یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی میں اکابر متقدمین کا ایک طبقہ وہ ہے جنہیں ''اصحابِ ترجیح‘‘ کہا جاتا ہے۔ پس صرف اختلاف برائے اختلاف اور عناد و حسد نہ ہو، حقیقت پسندی سے کام لیا جائے۔ علامہ صاحب نے مخالفین کا ردّ کرتے ہوئے کہیں بھی سُوقیانہ اور معیار سے گرا ہوا اندازِ بیان اختیار نہیں کیا۔ آپ نے کلامی ابحاث کے ساتھ ساتھ فقہی ابحاث بھی کی ہیں اور پوری دیانت کے ساتھ دوسرے مسالک کے موقف نقل کر کے دلائل کے ساتھ اُن سے اختلاف کیا ہے۔
4۔
بطنِ مادر میں نطفہ قرار پانے کے بعد ولادت تک جَنین جن مراحل سے گزرتا ہے، قرآنِ کریم نے ان کو جابجا تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، علامہ صاحب نے ایسے شواہد پیش کیے ہیں کہ آج جدید سائنس بھی اس شعبے میں قرآن کی تصدیق کر رہی ہے۔ سورۃ الزلزال کی تفسیر کرتے ہوئے زمین کی ساخت اور زلزلوں کے بارے میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ قرآن کریم نے ستاروں اور بروج کا ذکر کیا ہے، علامہ صاحب نے ان کے بارے میں بھی گراں قدر معلومات فراہم کی ہیں۔
5۔
آپ نے اپنی تفسیر میں تمام تفاسیر، شروحِ حدیث، کتبِ سیرت اور کتبِ فقہ کے حوالہ جات دے رکھے ہیں، لیکن آپ کے پیشِ نظر جو تفاسیر زیادہ رہیں، وہ امام رازی کی تفسیرِ کبیر، علامہ آلوسی کی روح المعانی اور علامہ قرطبی کی احکام القرآن ہیں، نیز دوسرے مسالک کے معاصرین کی تفاسیر کو بھی پیشِ نظر رکھا، اُن کی زَلّات کا تعاقب کرتے ہوئے دلائل کے ساتھ اپنے موقف کو بیان کیا ہے۔
6۔
تفسیر تبیان القرآن کی تکمیل کے بعد آپ نے ''تفسیر تبیان الفرقان‘‘ لکھی، اس کی چار جلدیں اُن کی زندگی میں چھپ چکی تھیں اور پانچویں جلد زیرِ تصنیف تھی، اس تفسیر کا بنیادی مقصد منحرفین، ملحدین، منکرینِ حدیث اور اباحتِ کُلّی کے نظریات کے حاملین کا ردّ کرنا تھا اور بعض مسائل میں آپ نے اس کا حق ادا کر دیا، لیکن آپ اپنی زندگی میں سورۂ یٰس تک تفسیر لکھ پائے تھے، بعد کی جلدیں ہم مکمل کرا رہے ہیں۔
7۔
علامہ صاحب کسی زمانے میں درسِ نظامی کے روایتی مدرّسین کی طرح مشکل پسند تھے، ثقیل فنّی الفاظ و اصطلاحات استعمال کرتے تھے، ''توضیح البیان‘‘ اس کی نمایاں مثال ہے، لیکن بعد میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ چونکہ قرآن کی تفسیر اور حدیث کی شرح لکھنے کا بنیادی مقصد دین کا ابلاغ ہے، لہٰذا اُسے سہل اور عام فہم ہونا چاہیے، اُس میں ابلاغ کی صلاحیت زیادہ سے زیادہ ہونی چاہیے، قاری کے ذہن پر بار محسوس نہ ہو، بلکہ ہر لفظ دل ودماغ میں اترتا چلا جائے، اس لیے آپ نے اردو روز مرّہ و محاورہ اور ادبیت کی چاشنی کو برقرار رکھتے ہوئے آسان اندازِ بیان کو ترجیح دی اور اس میں وہ کامیاب رہے۔
8۔
عربی زبان بالخصوص کلامِ الٰہی کی جملہ خصوصیات کا دنیا کی کسی زبان کے کسی بھی ترجمے میں حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہے، ورنہ یہ کلام مُعجز بیان نہ رہتا۔ سو تراجم میں مفہوم کو واضح کرنے کے لیے بعض مقامات پر ترجمے کے درمیان بین القوسین تفہیم کو سہل بنانے کے لیے الفاظ لکھے جاتے ہیں تاکہ قاری کے لیے ترجمہ سمجھنا آسان ہو جائے، علامہ صاحب نے بھی جابجا اپنے ترجمے میں اس شِعار کو اختیار کیا ہے، لیکن ضرورت کی حد تک، اس کی بہتات نہیں ہے۔
اس تفسیر کے مطالعہ کےلیے یہ لنک کو کھولیں:
http://www.marfat.com/BrowsePage.aspx?title=%d8%aa%d8%a8%db%8c%d8%a7%d9%86&author=Mollana%20Gulam%20Rasool%20Saeedi
بیسویں صدی کے معروف عالم دین اور نابغہ روزگار شخصیت مفتی احمد یار خان نعیمیؒ نے ’’ تفسیرِ نعیمی‘‘ کے نام سے ایک نایاب تفسیر لکھی ہے جس کا شمار اشرف التفاسیر میں ہوتا ہے اور جسے آپؒ کی تما م تصانیف میں وہ مقام حاصل ہے کہ آپؒ کے ہم عصر معتبر علماء بھی اس عظیم کارنامے سے حیرت بدنداں ہیں۔
سوانحِ حکیم الامت میں درج ہے کہ تفسیرِ نعیمی کو یہ عظیم شرف بھی حاصل ہے کہ خاتم الانبیاء، حضرت محمد مصطفےٰ(ﷺ) نے اسے پسند فرمایا اور بعض الفاظِ مقدسات خود آقا کریم (ﷺ) نے مفتی احمد یار خان نعیمی کو اِرشاد فرمائے کہ یہ لکھ دو۔بعض دفعہ خواب میں بعض دفعہ مراقبے میں۔
(شیخ بلال احمد صدیقی، سوانح حکیم الاُمت، ص:22)
مذکورہ تحریر میں ہم تفسیرِ نعیمی کے اسلوب و منہج کا مختصر تحقیقی مطالعہ کرتے ہوئے چند اہم پہلؤوں پر روشنی ڈالیں گے-
مفتی احمد یار خان نعیمی نے تفسیر نعیمی کے مقدمہ میں تفسیر کی جامع تعریف بیان کی ہے:
’’لفظ تفسیر فسر سے مشتق ہے جس کا معنی کھولنا ہے، محاورہ میں تفسیر یہ ہے کہ کلام کرنے والے کا اس طرح بیان کرنا جس میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے اور مفسرین کی اصطلاح میں تفسیر یہ ہے کہ قرآن پاک کے وہ احوال بیان کرنا جس میں عقل کو دخل نہیں بلکہ نقل کی ضرورت ہو جیسے آیات کا شان نزول یا ان کا ناسخ و منسوخ ہونا وغیرہ، تفسیر بالرائے حرام ہے"۔
مقدمہ میں آپؒ نے مفسر کی لازمی خصوصیات پر بھی اجمالاً روشنی ڈالی ہے جن میں سے چند اہم خصوصیات درج ذیل ہیں-
مثلا ًمفسر وہ شخص ہو سکتا ہے:
جو قرآن کے مقصد کو پہچان سکے۔
ناسخ و منسوخ کی پوری خبر رکھتا ہو۔
آیات وحدیث میں مطابقت کرنے پر قادر ہو۔
آیتوں کی توجیہ کر سکے جو قرآن پاک کی آیتیں عقل کی رو سے محال معلوم ہوتی ہوں ان کو حل کر سکے۔
عرب کے محاورے سے پوری طرح واقف ہو۔
محکم و متشابہ آیات کو پہچانتا ہو -قراتوں کے اختلاف سے واقف ہو۔
تفسیر ِ نعیمی اپنے اسلوب و منہج میں منفرد نوعیت کی حامل ہے جس میں قرآنی احکام و مسائل کو جامع و مفصل اور عام فہم انداز میں بیان کیا گیا ہے اور ہر قسم کے اعتراضات کا مدلّل جواب دیا گیا ہے- یہ تفسیر تقریبا ً دیگر اہم تفاسیر کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
یہ تفسیر (تفسیرِ نعیمی )، تفسیر روح البیان ، تفسیر کبیر ، تفسیر عزیزی، تفسیر مدارک، تفسیر محی الدین ابن العربی کا گویا خلاصہ ہے۔
اردو تفاسیر میں سب سے بہتر تفسیر خزائن العرفان کو مشعل راہ بنایا گیا گویا یہ تفسیر اس کی تفصیل ہے۔
اردو ترجموں میں نہایت اعلیٰ اور بہتر اعلیٰ حضرت ؒکا ترجمہ ’’کنز الایمان‘‘ ہے ؛اسی پر تفسیر کی گئی۔
ہر آیت کا پہلی آیت سے نہایت عمدہ تعلق اور ربط بیان کیا گیا ہے۔
آیات کا شان نزول نہایت وضاحت سے بتایا گیا اور اگر شان نزول چند مروی ہیں تو ان کی مطابقت کی گئی ہے۔
ہر آیت کی اولاً تفسیر اور پھر خلاصہ تفسیر اور پھر تاویلِ صوفیانہ دلکش اور ایمان افروز طریقہ سے کی گئی ہے۔
ہر آیت کے ساتھ علمی فوائد اور فقہی مسائل بیان کیے گئے ہیں۔
تقریباً ہر آیت کے ماتحت آریہ، عیسائی وغیرہ دیگر ادیان اور نجدی، قادیانی، نیچری، چکڑالوی وغیرہم کے اعتراضات، معہ جوابات بیان کیے گئے ہیں۔
مزید برآں! ہر آیت کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی نے حضور غوث پاکؒ کی عقیدت میں گیارہ چیزیں درج کی ہیں:
’’1-عربی آیت، 2- لفظی اپنا ترجمہ، 3- اعلیٰ حضرت مجدد بریلویؒ کا ترجمہ، 4 - تعلقاتِ آیات ، 5 - نزول و شانِ نزول، 6 - تفسیر نحوی، 7 -تفسیر عالمانہ، 8-فوائد آیٰت، 9- آیت سے فقہی مسائل، 10- اعتراضات جوابات، 11-تاویلِ صوفیانہ وغیرہ
تفسیرِ نعیمی کے اُسلوب و منہج کے تحقیقی مطالعہ سے متعلق چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں جن پر مفتی احمد یار خان نعیمیؒ نے نہایت مدلّل و مفصل بحث کی ہے:
مثلا ً تاویل و تحریف کے بیان میں لکھتے ہیں کہ :
لفظ تاویل اول سے مشتق ہےاس کے معنی ہیں رجوع کرنا، اصطلاح میں تاویل یہ ہے کہ کسی کلام میں چند احتمال ہوں ان میں سے کسی احتمال کو قرینوں سے اور علمی دلائل ترجیح دینا یا کلام میں علمی نکات وغیرہ بیان کرنا اس کیلیے نقل کی ضرورت نہیں بلکہ ہر عالم اپنی قوت علمی سے قرآن پاک میں نکات وغیرہ نکال سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ خلاف شریعت ہرگز نہ ہو اسی لیے مفسرین بڑے بڑے نکات بیان فرماتے ہیں اور ہر ایک کے لیے نقل پیش نہیں فرماتے۔
حجّتہ الاسلام امام ابو حامد محمد الغزالیؒ نے ’’احیاء العلوم شریف باب ہشتم‘‘ میں فرمایا کہ قرآن پاک کے ایک ظاہری معنی ہیں اور ایک باطنی ظاہری معنی کی تحقیق علماءِ شریعت فرماتے ہیں اور باطنی کی صوفیائے کرام حضرت علی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ اگر میں چاہوں تو سورہ فاتحہ کی تفسیر سے ستر اونٹ بھر دوں مگر یہ باطنی تفسیر ظاہری معنی کے خلاف ہرگز نہ ہو گی۔
تحریف مشتق ہے ح رف سے؛ حرف کے معنی ہیں علیحدگی یا کنارہ- اصطلاح میں تحریف یہ ہے کہ کلام کا مطلب ایسا بیان کیا جائے جو کلام کرنے والے کے مقصد کے خلاف ہو- مفسرین کی اصطلاح میں تحریف دو طرح کی ہے تحریف لفظی اور تحریف معنوی- تحریف لفظی یہ ہے کہ قرآن کی عبارت کو دیدہ دانستہ بدل دیا جائے جیسا کہ یہودو نصاریٰ نے اپنی اپنی کتابوں میں کیا- تحریف معنوی یہ ہے کہ قرآن پاک کے ایسے معنی اور مطلب بیان کیے جائیں جو کہ اجماع امت یا عقیدہ اسلامیہ یا اجماع مفسرین یا تفسیر قرآن کے خلاف ہوں اور وہ یہ کہے کہ آیت کے وہ معنی نہیں ہیں بلکہ یہ ہیں جو میں بیان کر رہا ہوں جیسا کہ اس زمانہ میں چکڑالوی، قادیانی اور نجدی وغیرہ کر رہے ہیں دونوں قسم کی تحریفیں کفر ہیں۔
اسی طرح وباؤوں سے متعلق بحث کرتے ہوئے بڑے احسن انداز میں طاعون کی بیماری(جو بنی اسرائیل پر عذاب کی شکل میں آئی ) سے متعلق مسائل،اعتراضات مع جواب، فائدے احادیث اور اس مسئلے کی تفسیر ِ صوفیانہ و عالمانہ بیان کی ہے-مثلاً ذکر و دعا میں بالکل فرق نہ کیا جائے کیونکہ بنی اسرائیل نے دعا کے لفظ ہی بدلے تھے جس سے ان پر عذاب آ گیا تھا؟ دوسرا اعتراض جب قحط سالی اور دوسری بلاؤں سے بھاگنا جائز ہے تو طاعون سب سے سخت بلا ہے اس سے بھاگنا کیوں حرام ہے؟ اس پر بڑی مدلّل و پر مغز گفتگو فرمائی ہے۔
امام شافعیؒ کا قول نقل فرماتے ہیں کہ طاعون کا بہترین علاج تسبیح و تحلیل اور درود شریف ہے بشرطیکہ ظاہری اور باطنی شرطوں کے ساتھ ہو- وبا کے زمانہ میں سورۃ الدخان شریف بلند آواز سے صبح کے وقت پڑھنے سے جہاں تک اس کی آواز جائے وہاں تک امن رہتا ہے- حال ہی میں پھیلنے والی وباء کورونا وائرس طاعون ہی کی ایک شکل ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے -کورونا وائرس کا طاعون سے کا تقابلی جائزہ کرتے ہوئے تفسیر نعیمی میں بیان کردہ شرعی مسائل سے رہنمائی لی جاسکتی ہے۔
مزید سورۃ المائدہ (آیت: 35) کی تفسیر میں وسیلہ سے متعلق قرآن کریم، احادیث مبارکہ، فوائد اور تفسیر عالمانہ و صوفیانہ کی روشنی میں وسیلہ پر مفصل و مدلل بحث کی ہے- مثلاً بندوں کا وسیلہ کوئی چیز نہیں صرف اپنے اعمال کا وسیلہ چاہیے؟ اللہ تعالیٰ خود قادر مطلق ہے وہ بغیر وسیلہ ہر چیز ہم کو دے سکتا ہے؟ قا بیل کو حضرت آدم علیہ السلام کا وسیلہ کنعان کو نوح علیہ السلام کا وسیلہ؟ مشرکین و کفار اس وسیلہ کی بیماری میں گرفتار ہیں ان کا شرک و کفر ہی یہی ہے کہ وہ خدا رسی کیلیے بتوں کو وسیلہ مانتے تھے؟
ان تمام اعتراضات کا جواب بڑے احسن انداز میں دلائل کے ساتھ مزین کیا ہے نعیمی صاحب نے وسیلہ سے متعلق ایک مستقل رسالہ (رحمت خدا بوسیلہ اولیاء) بھی تحریر فرمایا ہے جس میں 22 آیاتِ قرآنیہ،21 احادیث ِ نبویہ، 16اقوال علماء و اولیاء اور دس اقوال ِمخالفین سے اس وسیلہ کا ثبوت دیا گیا۔
اسی طرح سورۃ البقرہ (آیت: 238) ’’حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُوْمُوْا لِلَّـهِ قَانِتِينَ‘‘ میں ’’صَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ‘‘سے متعلق آیات، شان نزول، فوائد، اعتراض مع جواب،تفسیر، خلاصہ تفسیر، فقہی مسائل اور تاویلِ صوفیانہ کی روشنی میں بڑی احسن تفسیر و تاویل فرما ئی ہے- تفسیر عالمانہ و تاویلِ صوفیانہ میں صلوٰۃ وسطی سے کیا مراد ہے؟ مزید آیت پر اعتراضات کا جواب مذاہب آئمہ کرام کے اقوال سے دیا ہے-اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہمیشہ نماز فجر میں کھڑے ہو کر دعائے قنوت پڑھنی چاہیے کیونکہ یہاں ’’قُوْمُوْا‘‘ کے ساتھ ’’قَانِتِينَ‘‘ فرمایا گیا؟ اور صوفیا کرام نے جو ’’صَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ‘‘ کی تفسیر کی ہے اسے بھی دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے۔
الغرض! حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی کی یہ تفسیری کاوش عصری حوالے سے موثر و نمایاں ہے جو علمی مباحث و موضوعا ت کا احاطہ کیے ہوئے ہے-آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی نایاب تفسیر کو پڑھا جائے اور متلاشیان ِ علم و دین تک پہنچایا جائے جو عصری مسائل کا حل اور عصری الحادی فتنوں کے رد میں بہترین قرآنی جواب فراہم کرتی ہے- خوف ِ طوالت کے پیش ِ نظر ہم نے بہت سے مضوعات کو ابھی بیان بھی نہیں کیا بالخصوص محکم و متشابہات، ناسخ و منسوخ ،وراثت کے مسائل اور اسی طرح کے دیگراہم نوعیت کے موضوعات پر یہ تفسیر کتاب ہدایت سے نور ہدایت کی طلب رکھنے والوں کو اپنے اندر غور و خوض کرنے کی دعوت دیتی ہےاور فہم قرآن کو عام کرنے کیلئے گراں بہا سرمایہ ہے-
نوٹ:
مفتی احمد یار خان نعیمیؒ نے تفسیرِ نعیمی صرف 11 ویں پارے کے آخر ربع تک لکھی جس کا ہر پارہ ایک جلد پر مشتمل ہے- آپؒ یہ تفسیر مکمل نہ کرسکے کیونکہ زندگی نے مزید مہلت نہ دی اور آپ دارِ فانی سے رحلت فرما گئے- اسی لئے بقیہ پاروں کی تفسیر آپ کے فرزندِ ار جمند حضرت مفتی اقتدار احمد خان نعیمیؒ نے مکمل کی۔
اس تفسیر کے مطالعہ کےلیے یہ لنک کو کھولیں:
http://www.marfat.com/BrowsePage.aspx?title=%d8%aa%d9%81%d8%b3%db%8c%d8%b1%20%d9%86%d8%b9%db%8c%d9%85%db%8c&author=
اعلیٰ حضرتؒ کی تصانیف میں ترجمۂ قرآن کنزالایمان اور فتاویٰ العطایۃ النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ اپنی مثال آپ ہیں۔ کنزالایمان پر ڈاکٹرمجیداللہ قادری نے کراچی یونیورسٹی سے پی ۔ایچ ۔ڈی بھی کیا ہے جبکہ صرف کنزالایمان کے حوالے سے تقریباً پچاس کتب ورسائل اورمقالات پاک وہند میں شائع ہوچکے ہیں۔حال ہی میں عالمِ اسلام کی عظیم یونیورسٹی جامعۃ الازھرکے سربراہ(شیخِ ازھر)کو بھی کنزالایمان کا تحفہ پیش کیا گیا ہے۔
(ہفت روزہ الدعوۃ لیبیا،شمارہ ۲۶ ربیع الاول ۱۴۲۱ھ)
اس ترجمہ پر بعض مفسرین نے تفسیری حواشی اور تفاسیر لکھی ہیں۔
(سال نامہ معارف رضا کراچی ۱۹۸۹ء،ص۱۴۰)
کنزالایمان کا تقریباً8 زبانوں میں ترجمہ ہوچکاہے،عنقریب فارسی زبان میں ترجمہ کاکام بھی شروع ہونےوالاہے۔
فتاویٰ رضویہ فقہ حنفی کاایک عظیم انسائیکلوپیڈیاہے جسے دیکھ کر علماء عجم ہی نہیں بلکہ فضلاء عرب بھی حیران رہ گئے،چنانچہ محمدبن سعودیونیورسٹی ریاض کے کلیۃ الشریعہ کے پروفیسر شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے فتاویٰ رضویہ کا ایک فتویٰ ملاحظہ فرمایاتوحیرانی کے عالم میں فرمایا:
میں نے جلدی جلدی میں عربی،فتویٰ مطالعہ کیا،عبارت کی روانی اور کتاب و سنت و اقوالِ سلف سے دلائل کےانباردیکھ کر حیران و ششدررہ گیااور اس ایک ہی فتویٰ کے مطالعہ کے بعد میں نے یہ رائے قائم کرلی کہ یہ شخص کوئی بڑاعالم اوراپنے وقت کا زبردست فقیہ ہے۔
(مولانایٰسین اخترمصباحیامام احمدرضاارباب علم ودانش کی نظر میں،مطبوعہ کراچی ص۱۸۴)
اعلیٰ حضرت امام احمدرضا علیہ الرحمہ کی علمی خدمات پر اہلِ علم و فن کے تاثرات کے متعدد مجموعےاردو،انگریزی وغیرہ میں شائع ہوچکے ہیں آپ پر لکھےگئے مضامین ومقالات اور تحقیقی کام کی تفصیل الگ ہے۔اعلیٰ حضرت واحدایسی شخصیت ہیں جن کی ذات کے حوالے سے تحقیقی کام کرنے کے لیے دنیا بھرمیں افرادہی نہیں ادارے بھی فعال کرداراداکررہے ہیں جن میں ادارۂ تحقیقاتِ امام احمدرضاانٹرنیشنل کراچی،رضااکیڈمی لاہور،مرکزی مجلس رضا،رضافاؤنڈیشن لاہور،رضااکیڈمی ممبئی،انٹرنیشنل رضوی سوسائٹی ماریشس، رضا فاؤنڈیشن امریکہ،اعلیٰ حضرت فاؤنڈیشن اور رضااسلامک اکیڈمی چٹاگانگ بنگلہ دیش، رضا اکیڈمی برطانیہ وغیرہ قابلِ ذکرہیں۔
رضافاؤنڈیشن لاہورنے علامہ مفتی عبدالقیوم ہزاروی(علیہ الرحمہ) کی سرپرستی میں فتاویٰ رضویہ کی عربی وفارسی عبارات کے تراجم اور تخریج کاتاریخی کارنامہ سرانجام دیا،اس طرح اب تک فتاویٰ رضویہ قدیم کی ۱۲جلدیں ۳۰جلدوں میں شائع ہوچکی ہیں۔
امام احمد رضاعلیہ الرحمہ کے فکروخیال کے بہت سے پہلوہیں مگراس وقت ہم صرف کنزالایمان کے حوالے سے آپ کے علوم و فنون کا نظارہ کراناچاہتے ہیں۔
قرآن حکیم کاظاہر بھی ہے اور باطن بھی،اور پھرباطن کا باطن ہےاور یہ سلسلہ لامتناہی ہے ظاہر بیں نگاہ اس گہرائی میں اُترسکتی ہی نہیں۔ترجمہ کرتے وقت مترجم کی ایک ذہنی فضا ہوتی ہے،باکمال مترجم کی اس ذہنی فضامیں ستارےڈھلتے ہیں۔علم و دانش کی وسعت کے ساتھ ساتھ یہ فضا بھی وسیع ہوتی جاتی ہے ورنہ مترجم لغت میں اٹک کررہ جاتاہے بلکہ اس کے لیے مختلف المعانی لفظ کے لیے یہ تمیز کرنابھی مشکل ہوجاتاہے کہ کس معنی کاانتخاب کرے اور کن معانی کو چھوڑ دے۔وہ ایک معنی کی تنگ نائے میں گم ہوکررہ جاتاہے۔ایسی محدودنظر رکھنےوالامترجم ہرگزقرآن جیسی عظیم کتاب کے ترجمے کا حق نہیں رکھتا۔جس طرح نگینے جڑنے والازیورات میں رنگ برنگےچھوٹے بڑے نگینےبٹھاتاچلاجاتاہے ٹھیک اسی طرح باکمال مترجم الفاظ کے سامنے الفاظ بٹھاتاچلاجاتاہےبلکہ کبھی کبھی توالفاظ خودبخودبیٹھتے چلے جاتے ہیں۔کنزالایمان کے مطالعہ سے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے بے پناہ تدبر کابھی اندازہ ہوتاہے،وہ بخوبی جانتے ہیں کہ عوام الناس کے سامنے کیابات آنی چاہیےاور کیابات نہیں آنی چاہیے۔وہ ترجمہ کرتے وقت پڑھنےوالوں کےدلوں کوسنبھالے رکھتےہیں۔اس خوبی کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔
اردوکے مترجمینِ قرآن میں امام احمدرضااپنےتبحّرعلمی کی وجہ سے بے نظیراوربے مثال معلوم ہوتے ہیں جس نےان کا مطالعہ کیاہےاور مختلف علوم وفنون اورمختلف زبانوں میں ان کی مطبوعات و مخطوطات اور شرح و حواشی دیکھے ہیں وہ اس امر کی تصدیق کرسکتاہے، وہ ایک باخبرہوشمنداورباادب مترجم تھے،ان کے ترجمے کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ انہوں نے آنکھیں بندکرکےترجمہ نہیں کیابلکہ وہ جب کسی آیت کا ترجمہ کرتے تھےتوپورا قرآن،مضامینِ قرآن اور متعلقاتِ قرآن ان کے سامنے ہوتےتھے۔آپ کے ترجمۂ قرآن میں برسوں کی فکری کاوشیں پنہاں ہیں، مولیٰ تعالیٰ کا کرم ہے کہ وہ اپنے بندے کوایسی نظر عطافرمادےجس کے سامنے علم و دانش کی وسعتیں سمٹ کر ایک نقطہ پر آجائیں،فی البدیہہ ترجمۂ قرآن میں ایسی جامعیت کا پیداہوجاناعجائباتِ عالم میں سے ایک عجوبہ ہے ،اس سے مترجم کی عظمت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔
کسی حسین کے کمالِ حسن کا اس وقت پتہ چلتاہے جب کوئی اور حسین اس کے پہلو میں بٹھایا جائے۔اردوکے تمام تراجمِ قرآن میں اعلیٰ حضرت کا ترجمہ نہایت ہی حسین معلوم ہوتاہے مگرحیرت ہے کہ بعض لوگوں کو دوسرےایسے تراجم حسین لگتےہیں جن کو عقلِ سلیم تسلیم نہیں کرتی۔ہم اس حسین ترجمے کے ساتھ اردو کے دیگرتراجم کی بعض مثالیں پیش کررہے ہیں پھرآپ خودہی فیصلہ فرمائیں کہ حسن ورعنائی،ادب اور گہرائی و گیرائی کس ترجمہ میں ہے۔
ترجمہ مولانامحمودحسن دیوبندی:
اورمکرکیاان کافروں نے اورمکرکیااللہ نے اور اللہ کاداؤسب سے بہترہے۔
ترجمہ مولانافتح محمدجالندھری:
اور وہ (یعنی یہود قتل عیسیٰ کے بارےمیں ایک)چال چلےاورخدابھی (عیسیٰ کو بچانے کے لیے)چال چلااورخداخوب چال چلانےوالاہے۔
ترجمہ مولانااشرف علی تھانوی:
اوران لوگوں نے خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب تدبیریں کرنے والوں سے اچھے ہیں۔
ترجمہ اعلیٰ حضرت:
اورکافروں نےمکرکیااور اللہ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب بہترچھپی تدبیروالاہے۔
ترجمہ مولانامحمودحسن دیوبندی:
البتہ منافق دغابازی کرتے ہیں اللہ سے اور وہی ان کو دغادےگا۔
ترجمہ فتح محمدجالندھری:
منافق ان چالوں سے اپنے نزدیک خداکودھوکادیتے ہیں(یہ اس کو کیا دھوکادیں گے) اور وہ انہیں کو دھوکے میں ڈالنےوالاہے۔
ترجمہ مولانااشرف علی تھانوی:
بلاشبہ منافق لوگ چالبازی کرتے ہیں اللہ سے حالانکہ اللہ تعالیٰ اس چال کی سزاان کو دینے والے ہیں۔
ترجمہ اعلیٰ حضرت:
بے شک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ کوفریب دیاچاہتے ہیں اور وہی انہیں غافل کرکے مارے گا۔
ترجمہ مولانامحمودحسن دیوبندی:
سواگراللہ چاہے مہرکردےتیرے دل پر۔
ترجمہ مولانافتح محمدجالندھری:
اگرخداچاہے تواے محمدتمہارے دل پر مہرلگادے۔
ترجمہ مولانااشرف علی تھانوی:
سوخدااگرچاہےتوآپ کے دل پر بندلگادے۔
ترجمہ اعلیٰ حضرت:
اوراللہ چاہے توتمہارے دل پر اپنی رحمت وحفاظت کی مہرفرمادے۔
ترجمہ مولانامحمودحسن دیوبندی:
اورمعافی مانگ اپنے گناہ کے واسطے اورایمان دارمردوں اورعورتوں کیلیے۔
ترجمہ فتح محمدجالندھری:
اورگناہوں کی معافی مانگو(اور)مومن مردوں اورمومن عورتوں کے لیے بھی۔
ترجمہ مولانااشرف علی تھانوی:
اورآپ اپنی خطاکی معافی مانگتےرہیےاور سب مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے بھی۔
ترجمہ اعلیٰ حضرت:
اور اے محبوب!اپنے خاصوں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو۔
ترجمہ مولانامحمودحسن دیوبندی:
ہم نے فیصلہ کردیاتیرے واسطے صریح فیصلہ تاکہ معاف کرے تجھ کو اللہ جو آگے ہوچکے تیرے گناہ اور جوپیچھےرہے۔
ترجمہ فتح محمدجالندھری:
(اےمحمد)ہم نے تم کو فتح دی۔فتح بھی صریح اور صاف تاکہ خداتمہارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے۔
ترجمہ مولانااشرف علی تھانوی:
بیشک ہم نے آپ کو ایک کھلّم کھلافتح دی تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرمادے۔
ترجمۂ اعلیٰ حضرت:
بےشک ہم نے تمہارےلیے روشن فتح فرمادی تاکہ اللہ تمہارےسبب سے گناہ بخشے اگلوں کے اورتمہارے پچھلوں کے۔
ترجمہ مولانامحمودحسن دیوبندی:
اورپایاتجھ کو بھٹکتاپھرراہ سمجھائی۔
ترجمہ مولانافتح محمدجالندھری:
اوررستے سے ناواقف دیکھاتورستہ دکھایا۔
ترجمہ مولانااشرف علی تھانوی:
اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو(شریعت سے)بےخبرپایاسو(آپ کو شریعت کا)راستہ بتلادیا۔
ترجمہ اعلیٰ حضرت:
اورتمہیں اپنی محبت میں خودرفتہ پایاتواپنی طرف راہ دی۔
ترجمہ مولانامحمودحسن دیوبندی:
توکہہ میں بھی ایک آدمی ہوں جیسے تم۔
ترجمہ مولانافتح محمدجالندھری:
کہہ دوکہ میں تمہاری طرح کا ایک بشرہوں۔
ترجمہ مولانااشرف علی تھانوی:
اورآپ یوں بھی کہہ دیجئے کہ میں تم ہی جیسابشرہوں۔
ترجمہ اعلیٰ حضرت:
تم فرماؤ ظاہری صورتِ بشری میں تومیں تم جیساہوں۔
ترجمہ مولانامحمودحسن دیوبندی:
اورحکم ٹالاآدم نے اپنے رب کا پھرراہ سے بہکا۔
ترجمہ مولانافتح محمدجالندھری:
اورآدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیاتو(وہ اپنے مطلوب سے)بےراہ ہوگئے۔
ترجمہ مولانااشرف علی تھانوی:
اورآدم سے اپنے رب کا قصور ہوگیا سو غلطی میں پڑگئے۔
ترجمۂ اعلیٰ حضرت:
اورآدم سےاپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی توجومطلب چاہاتھااس کی راہ نہ پائی۔
ترجمہ مولانامحمودحسن دیوبندی:
کیاکیاتوتھامیں نے وہ کام اور میں تھاچوکنےوالا۔
ترجمہ مولانافتح محمدجالندھری:
(موسیٰ نے)کہاکہ (ہاں)وہ حرکت مجھ سے ناگہاں سرزد ہوئی تھی اور میں خطاکاروں میں تھا۔
ترجمہ مولانااشرف علی تھانوی:
موسیٰ نے جواب دیا کہ (واقعی)اس وقت وہ حرکت میں کربیٹھاتھااور مجھ سے غلطی ہوگئی تھی۔
ترجمہ اعلیٰ حضرت:
موسیٰ نے فرمایا،میں نے وہ کام کیاجب کہ مجھے راہ کی خبرنہ تھی۔
یہ چندنمونےپیش کیےگئےہیں،پورےقرآن پاک سے لیے جاتے توایک ضخیم کتاب تیار ہوجاتی۔ ترجمہ کا جائزہ لیتے وقت اس حقیقت کو فراموش نہ کرناچاہیےکہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نےاپنےشاگردوخلیفہ،فاضلِ جلیل مولانامحمدامجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ کوفی البدیہہ یہ ترجمہ املاکرایاتھا،ان کے سامنے نہ سابقہ اردوتراجم تھے اور نہ متعلقہ کتابیں، ہاں وہ دماغ ضرورتھاجس کودنیاکاعظیم علمی خزانہ کہاجائےتوبجاہے۔ترجمۂ قرآن فی البدیہہ املا کرانے کے باوجودیہ ترجمہ ایساگٹھاہوااوربندھاہوامعلوم ہوتاہےجیسے برسوں محنت کی ہو اور مہینوں نوک پلک درست کی ہو۔الحمدللہ اس ترجمہ کے اصل متن کامخطوطہ ادارۂ تحقیقات امام احمد رضاانٹرنیشنل، کراچی کے کتب خانے میں محفوظ ہے، اس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ ترجمہ املابھی اتنی سرعت سے کرایاگیاکہ تشریحی کلمات کے لیے قوسین لگانےکاوقت بھی میسرنہ آیا۔یہ کام ناشرین کو کرواناچاہیے۔
الغرض اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے علم و فضل کی شعاعوں سے ہرشعبۂ زندگی کو منور کیا۔ وہ جب تک رہے عالمِ اسلام کی رہنمائی کافریضہ انجام دیتےرہے۔
وہ ایک عظیم رہنماتھے،زندگی بھربھولے بھٹکوں کوراہ دکھاتے رہے۔ انہوں نے مارہرہ شریف سے جو روشنی حاصل کی تھی سارے عالم میں اس کو پھیلاتےرہےاوردنیاکوروشن کرتے رہے۔
اس تفسیر کے مطالعہ کےلیے یہ لنک کو کھولیں:
https://archive.org/details/KanzUlIman_201306
پیر محمد کرم شاہ الازہری یکم جولائی 1918ء بمطابق 12 رمضان المبارک 1334ھ بھیرہ ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئی اور 17 اپریل 1998ء میں آپؒ اس دنیاے فانی سے رحلت فرما گئے. آپؒ نے تنہا امت مسلمہ کے لیے وہ کام کیا جو بڑے بڑے گروہ اور ادارے نہ کر سکے ۔جب آپؒ نے دیکھا مسلمانان پاکستان کی یہ حالت ہے کہ کالج سے آنے والا مولوی کو دیکھنا گوارا نہیں کرتا اور قال اللہ وقال الرسولﷺ پڑھنے والے کو آج کی نسل کا نوجوان ایک آنکھ نہیں بھاتا تو آپؒ نے ایک ایسا نصاب تعلیم دیا جس نصاب کو پڑھنے والا شاہین دونوں آنکھیں روشن کر کے نکلتا ہے.
آپؒ کی ظاہری زندگی نے جہاں اک جہاں کو متاثر کیا اور ان کے قلوب و اذہان پر نقوش چھوڑے وہاں آپؒ کے ارشادات و فرامین جو نصف صدی سے زائد کو چھپاتے ہیں ہزاروں لاکھوں کی تیرہ تار زندگیوں کے لیے وجہ تنویر بنے۔آپؒ مسند ارشاد پر فائز ایک شیخ طریقت اورجستجویانِ حق کے لیے ایک رہبر کامل تھے۔آپؒ کی پوری زندگی تحریر و تقریر سے عبارت تھی اور سب سے بڑھ کر آپؒ سنت حبیبﷺ پر عمل پیرا ہونے والے ایک سچے عاشق رسول ﷺ تھے۔
تفسیر ضیاء القرآن آپؒ کی اسی تبحر علمی کی عکاس ہے یہ تفسیر 5 جلدوں پر مشتمل ہے یہ قرآن کے پرسوز نالوں کی شرح معلوم ہوتی ہے لہذا جہاں تک اس تفسیر کا تعلق ہے تو یہ عصر حاضر کی تمام تفاسیر میں فن ادب،جوہرتحقیق،زبان اور تفسیری نکات کے علاوہ اجتہادی رنگ میں امتیازی حیثیت رکھتی ہے یوں تو ہر زبان میں تفاسیر لکھی گئیں اور اردو میں لکھی ہوئی تفاسیر میں اگرچہ ترجمہ و تفاسیر کے بنیادی تقاضے تو پورے ہوئے لیکن ترجمہ و تفسیر کی وہ دلربائی و چاشنی جو پڑھنے والے کو مسحور کر دے اور تفسیر کھولتے ہی قاری کو اپنے فطری اعجاز حسن میں مست کر دے جوایک مسافر شوق کو قرآنی نقطہ آفرینیوں کی طرف کھینچ لے وہ تفسیر ضیاء القرآن کا اعجاز و خوبی ہے اور دوسری خوبی اس میں عشق مصطفیٰﷺ کا رنگ نظر آتا ہے۔آپؒ نے بے شمار کتب تصنیف کیں ان میں ہمارے زیر بحث آ پؒ کی شہرہ آفاق تفسیر ضیا ء القرآن ہے جو کہ آپ کیؒ 19سال کی طویل مدت میں 3500 صفحات پر مشتمل ہے۔
تفسیر کی زبان انتہائی آسان اور قاری کے لیے دلچسپی کا سبب ہے ہر سورت کی ابتداء میں مقدمہ لکھتے ہیں جس کو تعا رف سورت کے نام سے واضح کر کے اس میں سورت کے نزول کے وقت کے حالات کو بیان کر کے نزول کے وقت اردگرد کا ماحول ذکر کرتے ہیں اس کے بعد سورت کا نام ،آیات کی تعداد ، رکوع اور اسباب نزول ضرور بیان کرتے ہیں۔ تعدادالفاظ و حروف اور سورت کے مضامین ذکر کیے جاتے ہیں قرآن کریم کے کلمات کے نیچے اردو میں ان کا ترجمہ بیان کرتے ہیں ۔
پیر صاحب تفسیر کے مقدمے میں اسلوب تحریر کے متعلق لکھتے ہیں :
”کہ ہر سورت سے پہلے اس کا تعارف جس میں سورت کا زمانہ نزول ،اس کا ماحول،اہم اغراض و مقاصد، مطالب،مضامین خلاصہ اوراگر اس میں کسی سیاسی یا تاریخی واقعہ کا ذکر ہے تو اس کا پس منظر بیان کیا ہے تا کہ قارئین تعارف کو پڑھ لیں گے تو سورت کا مطالعہ کرتے وقت وہ ان امور خصوصی پر زیادہ توجہ مبذول کر سکیں گے نیز یہ کہ اس میں ترجمے کی دونوں اقسام کو یکجا کیا گیا ہے تا کہ کلام کا تسلسل اور روانی برقرار رہے اور زور بیان میں بھی فرق نہ آنے پائے۔
پیر صاحب کا ترجمہ قرآن دونوں خصوصیات کا حامل ہے وہ لفظی بھی ہے اور بامحاورہ بھی ہے۔نہایت خوبصورت اور موئثر الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے ترجمہ و تفسیر وہ دلربائی و چاشنی ہے جو پڑھنے والے کو مسحور کر دیتی ہے ۔
اس تفسیر میں اسلام کے نظام عبادات، سیاسیات،معاشیات اور اخلاقیات کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی اس طرح کوشش کی گئی ہے کہ عصر حاضر کا انسان س سے بہت استفادہ کر سکتا ہے۔
اس تفسیر میں کائنات کے پالنہار کی ذات و صفات کا ایسا حسین تذکرہ فرمایا ہے کہ پڑھ کر عقل و خرد مطمئن اور قلب و نظر مسرور ہو جاتے ہیں۔“
یہ تفسیر عمل و عشق کا حسین امتزاج ہے کیونکہ ضیاء القرآن کا یہ طرہ ہے کہ اس میں جہاں دلائل تواضح بخش ہیں وہاں عظمت رسالت بھی اپنی رعنائی کے ساتھ موجود ہے ۔صاحب تفسیرنے متعدد ایسے مقامات پر نعت کبریاء ﷺ کا پہلو نکالا ہے جہاں اکثر مفسرین توجہ دیے بغیر گزر جاتے ہیں۔
جیسا کہ پیر کرم شاہؒ کا تعلق ایک صوفی گھرانے کے ساتھ تھااوریہ رنگ نہ صرف آپ کی شخصیت کا حصہ بنا بلکہ آپؒ کی تفسیر ضیاء القرآن میں بھی یہ پہلو نمایاں حیثیت کا حامل ہے جیسا کہ
کی تفسیر کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ مومنین کو صاف دل عطا ہوئے پس جب وہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے دل بوجہ انس کے رب تعالیٰ اس طرح اطمینان محسوس کرتے ہیں جیسے مچھلی پانی میں مطمئن ہوتی ہے اور یہ حالت صوفیائے کرام کے نزدیک وحدانیات میں سے ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس قول سے مراد صوفیائے کرام ہی ہیں۔
مصنف نے تفسیر صوفیاء اور اقوال صوفیاء سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی آراء کو تقویت بخشی ہے جن میں شیخ اسماعیل حقی کی روح البیان،تفسیر مظہری،ابو بکر بن عبد اللہ محمد الاسدی کی تاویلات نجمیہ کے علاوہ کئی دوسری صوفی تفاسیر بھی شامل ہیں) ۔بعض مفسرین نے قرآن مجید کے اسرار و رموز سمجھاتے ہوئے عقائد و احوال کے حوالے سے بعض غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن پیر صاحب نے اپنے اسلوب تحریر کی روشنی میں ان کی تردید کر دی ہے یہی وجہ ہے کہ اگرکوئی ضیاء القرآن کے مطالعے کے ساتھ ساتھ دیگر تفاسیر کا بھی مطالعہ کرے تو اس تفسیر نے جہاں اہل علم کی پیاس بجھائی ہے وہاں غلط فہمیوں کا ازالہ کر کے عوامی ضروریات کو بھی پورا کر دیا ہے۔
آپ کے اسلوب تحریر کی خوبصورتی نے مسلکی مسائل بھی اسی طرح بیان کیے ہیں کہ کسی کی دل شکنی نہیں ہوتی نیز مختلف مسالک کی تفاسیر کے حوالہ جات بھی دیئے گئے ہیں تفسیر ضیاء القرآن کے ماخذ و مصادر میں انسائیکلوپیڈیاز،لغات ،تفاسیر،فتاویٰ جات اور الہامی کتب میں درج ذیل کتب نمایاں ہیں :
۱۔المفردات القرآن،۲۔ القاموس الوحید،۳۔المنجد،۴۔تاج العروس،۵۔تفسیر بیضاوی،6۔ تفسیر کشاف، ۷۔تفسیر کبیر،۸۔تفسیر احکام القرآن،۹۔تفسیر روح المعانی،۱۰۔تفسیر خازن ،۱۱۔تفسیر روح البیان،۱۲۔تفسیر فتح البیان ، ۱۳۔تفسیر ابن کثیر،۱۴۔البرہان فی علوم القرآن ،۱۵۔تفسیر نیشاپوری،۱۶۔تفسیر المنار، ۱۷۔ فتاویٰ عزیزی، ۱۸۔تفسیر مظہری، ۱۹۔تفسیر تفہیم القرآن،۲۰۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ،۲۱۔ اناجیل(متی، لوقا)،۲۲۔تورات
اس تفسیر کے مطالعہ کےلیے یہ لنک کو کھولیں:
http://marfat.com/BrowsePage.aspx?title=zia%20ul&author=